آئیے دیکھتے خواتین کا عالمی دن ہے کیا ؟اور اسکی حقیقت کیا ہے ؟ایک صدی پیچھے چلئے،یہ 8مارچ 1907 کادن ہے۔امریکہ کے شہرنیویارک میں کپڑے کی صنعت سے وابستہ خواتین دس گھنٹے کی محنت کے عوض معقول معاوضہ نہ ملنے پر احتجاج کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سخت مشقت کے باوجود انھیں مناسب تنخواہیں نہیں دی جا رہیںانھوں نے کام کے اوقات کار میں کمی کا بھی مطالبہ کیا۔احتجاج جائز تھا کیونکہ جب ناانصافی نا قابل برداشت اور مالکان کی بے حسی انتہا کو پہنچ گئی تووہ اپنا حق لینے کیلئے سڑکوں پرآگئیں لیکن بجائے شنوائی کے، پولیس نے لاٹھی چارچ کیا اور بالوں سے پکڑ کر ان کی تضحیک کی۔کچھ ایسا ہی منظر ایک سال بعد 8 مارچ1908 میں دوبارہ دیکھنے میں آیاجب ریاست نے ایک بار پھر اپنی ذمہ داری پورا کرنے کی بجا ئے ا ٓواز دبانے کیلئے پرتشدد رستہ اختیار کیا۔بالآخر1910 میں روسی خاتون نے واقعے کی اہمیت کا احساس دلایا اور اسکے بعد 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگگا۔
آئیےچودہ سو سال مزید پیچھے چلتے ہیں یہ وہ دور تھا جب خواتین کی عزت تو درکنارمختلف تہذیبوں میں انھیں انسان سمجھنے کے حوالے سے بھی سوچ بچار کی جا رہی تھی۔ظلم ،جبر،تحقیرآمیز رویہ معمولی بات تھی۔
تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہٴ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان میں، مصر میں، عراق میں، ہند میں، چین میں، غرض ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خریدوفروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیاجاتاتھا؛ حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا ۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھناروحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔ اس کے معاشی وسیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔پھر اللہ رب العزت کی رحمت جوش میں آئی اور دین مبین کے ذریعے خواتین کو وہ عزت ومقام حاصل ہوا جس کا تصور تک نہ تھااور جس پر بلاشبہ خواتین اپنے خاتون ہونے پر فخر کرتی ہیں۔یہ اسلام کا ہی اعجاز ہے جس کی بدولت خواتین نہ صرف معاشرے کا معزز اور باوقار رکن قرار پائیں بلکہ انھیں مذہبی، روحانی، معاشی،معاشرتی،تعلیمی،قانونی اور سیاسی غرض ہر طرح کے حقوق بھی ملے۔صنف نازک ہونے کی حیثیت سے اسلام نے انھیں بعد ذمہ داریوں سے بھی محفوظ رکھنے کابھی اہتمام کیا ۔اسلام کی رو سے معاشی ذمہ داری خاندان کے مرد کی ہے اور عورت پر کوئی بوجھ نہیں ڈالاگیا گویا اسے اپنی ضروریات کیلئے کام کرنے کی ضرورت نہیں تاہم ناگزیر حالات میں اسے میں روکا بھی نہیں۔ اس کیلئے شرط یہ ہے کہ وہ جائز ہو اور شرعی حدود کے مطابق ہواور خواتین کی حفاظت کے پیش نظر ان کی رہنمائی بھی کی جن پر عمل کر کے وہ مسائل سے بچ سکیں۔جیساکہ پہلے کہا گیا ہے کہ خواتین کو معاشی فکر سے آزادرکھا گیا ہے تا ہم اگر وہ کام کرتی بھی ہے توبھی اسکی کمائی ذاتی ملکیت ہے مرد برحال اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا پابند ہے۔اسی طرح دیگر معاملات میں بھی ان کی آسانی اور مفادکو پیش نظر رکھاگیا ہے۔
جِی ہاں!اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت وپستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گو ارا کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین بن کر تشریف لائے اور آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالا۔ اور اس زندہ دفن کرنے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے اور قومی وملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپیں۔
اسلام نے ہر روپ میں عورت کو عزت دی ہے۔
1۔بحیثیت بیٹی اور بہن اسلام میں عورت کا مقام
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے (یعنی ان کے جو حقوق شریعت نے مقرر فرمائے ہیں وہ ادا کرے، ان کے ساتھ احسان اور سلوک کا معاملہ کرے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے) اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بدولت اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ (ترمذی ۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات)
اسی مضمون کی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے مگر اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ ﷺ کے ارشاد فرمانے پر کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی کی ایک بیٹی ہو (تو کیا وہ اس ثواب عظیم سے محروم رہے گا؟) آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص ایک بیٹی کی اسی طرح پرورش کرے گا، اس کے لئے بھی جنت ہے ۔ (اتحاف السادۃ المتقین)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ہو اور وہ اس کو صبر وتحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی )
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے (اور جب شادی کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کردے) تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح داخل ہونگے جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔ (ترمذی ۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات)
2۔بحیثیت ماں اسلام میں عورت کا مقام
حضور اکرم ﷺنے تو اپنی تعلیمات میں جا بہ جا والدین بالخصوص ماں کی عظمت شان اور رفعت مکان کو ظاہر کیا ،چند احادیث یہاں ملاحظہ فرمائیں ! ایک بار ایک صحابیِ رسول، نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺمیں نے اپنی ماں کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر حج کروایا ہے ، کیا میں نے ماں کا حق اداکر دیا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں ، تو نے ابھی اپنی ماں کی ایک رات کے دودھ کا حق بھی ادا نہیں کیا ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص نے حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺسب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ نیک رفاقت (خیر خواہی)کروں؟ فرمایا: تیری ماں ۔عرض کیا پھر؟فرمایا :تیری ماں۔عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیری ماں۔عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیرا باپ۔ (بخاری )
3۔بحیثیت بیوی اسلام میں عورت کا مقام
بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجة الوداع کے موقع پر فرمایا:
”لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو وہ تمہاری زیر نگین ہیں تم نے ان کو اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمھیں ناگوار ہے اگر ایسا کریں تو تم ان کو ہلکی مار مار سکتے ہو اور تم پر ان کو کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔(۱۵)
آپ نے ایک جگہ اور فرمایا:
خیرُکم خیرُکم لاہلہ وأنا خیرُکم لاہلي(۱۶)
تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔
انَّ أکْمَلَ الموٴمنینَ ایماناً أحسنُہم خُلقاً وألطفُہم لأہلہ(۱۷)
کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
آج ہم اپنے اصل یعنی اسلام کے بتائے گئے آفاقی اصولوں سے ہٹ گئے ہیں اور تباہی کو دعوت دے رہے ہیں۔اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہم اچھی مثال بننے کی بجائے خود بھی خواتین کے حقوق کا دن منا رہے ہیں اور وہ بھی اغیار کے ترغیب دینے پر۔۔۔ ۔افسوس صد افسوس۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے آپکو، اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اس کے لئے تھوڑی سی سنجیدگی کی ضرورت ہے۔
بقلم ۔۔۔مکرمہ کلیم کراچی