آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجاےٴ گی
اب سے چند سالوں پہلے تک ہمارے ملک میں یہ وبا عام نہیں ہوئی تھی نہ ہی بے حیائی کا بازارگرم ہوا تھا۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے آزاد میڈیا کی کرم نوازی کی بدولت یہ سرطان روز افزوں بڑھتا چلا جا رہا ہے آپ بھی یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کسی بیماری کا ذکر ہے تو چلیےٴہم آپ کو بتا ہی دیتے ہیں !جی ہاں یہ ذکر ہے ”ویلنٹائن ڈے“کاجس کے جراثیم اب مسلمان نوجوان نسل میں کافی حد تک سرایت کر چکے ہیں۔کچھ عرصے پہلے تک ہم لوگ اس کے نام سے بھی ناواقف تھے لیکن آزاد ”انفارمیشن ٹیکنالوجی“ نے ہمارے معصوم ذہنوں کو بھی تناہی کی دلدل میں دھکیلنا شروع کر دیا ہے۔
ہم اکثر عمران خان صاحب کا جملہ سنتے ہیں اور دہراتے ہیں کہ تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آچکی ہے تو قارئین میں اس مقولے سے سو فیصد متفق ہوں ۔۔۔۔۔۔ جی ہاں مسلمانوں میں تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آچکی ہے۔ہم جس دین کے پیروکار ہیں اسکی تعلیمات میں ”حیاء“کو دین کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ادب،عزت اور احترام حسبِ مراتب یہ چیزیں ہماری گھٹی میں ڈال دی جاتی ہیں اور شرم ،پردہ داری اور نیچی نظریں ہماری نسل کا وصفِ امتیازی ہوا کرتی تھیں مگر جوں جوں ہم نے اپنی دینی تعلیمات سے اعراض کرنا شروع کیا اور مغربی فحاشی اور بے حیائی کی یلغار کے سامنے گھٹنے ٹیکنے شروع کیے اس عفریت نے ہمیں اپنے شکنجے میں پوری طرح جکڑ لیا ہے۔
لڑکے اور لڑکیاں اپنے محبوب اور اپنے معشوقوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے لال رنگ زیب دلفریب لباس زیب وتن کیےٴ اپنے عاسق کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر کبھی سوچا کہ اُس رب کو بھی خوش کرنے کی کوشش کریں؟وہ رب جو ہمیں ستّر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے ۔دنیا میں تو محبت میں ناکامی ہوتی ہے لیکن اللہ رب العزت کی محبت میں کبھی کسی کو ناکامی نہیں ہوئی،یہ متاع الغرور ہونے کی وجہ سے دھوکے کا سامان ہے اور اسکی محبت اندھیرے پہ اندھیرالیکن اللہ رب العزت اپنے نیک بندوں کو کبھی بے سہارا نہیں چھوڑتے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہم مسلمان دینی احکام سے باخبر ہونے کے باوجود اگر ہم حکم ِ خداندی کو رد کرکے اسلام کی حدود کو فراموش کرکے اپنے عاشق اور محبوب کی خوشیوں کاخیال رکھ رہے ہیں یہ گمراہی ایسے ہی ہے جیسے ہم خود انگارے منہ رکھ رہے ہوں یہ صرف بربادی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
معاشرے میں امن،پیار اور انسانیت پھیلانے والے نام نہاد یہ محبت کے دعوے دار کہتے ہیں کہ اگر دنیا میں پیار پھیلانے کی بات کی جارہی ہے تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟جناب۔۔۔۔!یہ کہنے سے پہلےکاش کہ آپ نے اسلام کی تعلیمات پر ایک نظرِ التفات ڈالی ہوتی تو یقیناً آپ جان جاتے کہ ہمیں اسلام نے انسانیت کے نام پر ایک دوسرے کے لیےٴ جان تک کی بازی لگانے کو کہہ دیا ہے ۔اپنے مال مال میں سے دوسرے کو دینے کو کہا گیا ،حقوق العبادکا موضوع اس قدر وسعت رکھتا ہے کہ کون سا رشتہ ہے جس کے حقوق میں کہیں پیار کی کمی ہو یا بھروسے کی یا حاھت روائی کی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ جو مسلمان یہ یوم بے شرمی ”ویلنٹائن ڈے“مناتے ہیں کھبی انہوں نے نہیں سنا ہوگا کہ غیر مسلم اقوام اس سال ان کے ہمراہ رمضان کے روزے عیدالفطر اور عید الضحیٰ کی قربانی کریں گے ؟غیرت مند اقوام اپنے شعائر کو یوں راستوں میں پامال نہیں کرتیں چہ جائیکہ اپنی عفتیں اور عصمتیں گلی کوچوں ،پارکوں اور دیگر عوامی مقامات پہ لٹائی جائیں۔۔۔۔۔۔۔
ایک تلخ حقیقت ملاحظہ فرمائیں کہ جب اظہارِ راےٴ کے قائلین اور محبت کا درس یوں راستوں پر عام کرنے کا درس دینے والوں کو جب یہ بولا جاتا ہے کہ حضور ایک بہترین پھول کا گلدستہ عنایت کر دیجیےٴ مجھے اس”ویلنٹائن ڈے“پہ آپکی بیٹی کو دینا ہے اور ہاں ازراہِ کرم اپنی بیٹی کی پسند کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے اور آپ سے زیادہ آپکی بیٹی کی پسند کو کون جان سکتاہے؟؟؟اس بات غصے سے آگ بگولا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ”عیدِ محبت “کی دال میں کچھ کالا ضرور ہے ورنہ پھول فروخت کرنیوالےسے جب مندرجہ بالا سوال کیا جاتا تو وہ ہر گز غصہ نہ کرتا بلکہ فلاور اسٹال میں سے بہترین پھول اپنی بیٹی کے لیےٴ خریدار کو عنایت کرتا۔
خدارا۔۔۔۔۔۔۔!اغیار کی مشابھت میں جو بے غیرتی ہے اسکو سمجھنے کی کوشش کریں اور گھر کی عزتوں کو چاردیواری کے اندر محفوظ رکھنے کی بھرپور کوشش کریں۔اللہ رب العزت ہم سب کے حامی وناصر ہوں۔آمین یارب العالمین
ٍ والسلام
بنت راحت علی ہاشمی