اسلامُ غلیکم ورحمتہ الّلہ وبرکاتہ

قاریٔین کرام آج موضوعِ سخن ہے’کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ یہ سوال اکثر ذہن کے نہاں خانوں میں اُبھرتا ہے اور ۱۹۴۷ کی وہ تلخ یادیں ذہن میں خود ہی جواب کے مثبت ہونے کا یقین دلادیتی ہیں۔

ذرا سوچیۓ….سوچیۓ کہ اگر ہم واقعی آزاد ہیں تو اب بھی ہم ذہنی طور پر انگریزوں کی قید میں کیوں ہیں؟کیوں؟آخر کیوں ہم اپنے شب و روز انگریزوں کی پیروی کرتے ہوۓ بسر کرتے ہیں۔اپنے بچّوں کو فرفر انگریزی بولتا دیکھ کر کیوں ہمارا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔اپنے گھر کی بیٹیوں اور بہنوں کو مغربی لباس ذیبِ تن کرتا دیکھ کر کیوں ہم لب سِیے رہتے ہیں بلکہ صرف یہی نہیں،معاشرے میں مغربی لباس ذیب تن کیے فرفر انگریزی بولتی لڑکی کو قابل،جبکہ دوپٹے سے سر ڈھاپنے والی اور مشرقی تہذیب میں رنگی لڑکی کو دقیانوسی اور جاہل قرار دیتے ہیں۔

اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جا یٔےتو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ‘آزاد’ہوکر بھی ہم’ آزاد نہیں’ ہیں۔اگر اب بھی ہم ہوش کے ناخون لیں تو ہم روحانی آزادی حاصل کرسکتے ہیں بشرط یہ کہ ہم اپنی تہذیب و روایات پر سختی سے عمل کریں اور انگریزی روایات میں ڈوبنے کے بجاۓایک حد تک اُن سے منسلک رہیں یوں کہ ہماری روایات و تہذیب پر کوئ اثر نہ ہوسکے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

اعجاز ہے کسی کا یاگردشِ زماںہ ————- ٹوٹا ہے ایشیا میں سحرِفرنگیانا

براہِ مہربانی اس ‘سحرِفرنگیانا’ سے نکلنے کی کوشش کیجیے ورنہ کہیں ہم بھی کوے کی طرح اپنی چال بھی نہ بھول جائیں۔

شکریہ

مریم اھمد

طالبہ ۔دہم جماعت

Similar Posts