[download label=”Download PDF file”]https://hfs.edu.pk/wp-content/uploads/2014/11/ماہ-ِمحرم.pdf [/download]
[headline]Written by: Sajjad Ahmed [/headline]
محرم ا لحرام اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے۔محرم کا لفظ حرمت سے نکلاہے۔حرمت کالفظی معنی عظمت اوراحترام وغیرہ ہے ، اس بناپر محرم کا مطلب احترام اورعظمت والاہے۔ محرم الحرام کا سارامہینہ ہی عزت وتکریم والا مہینہ ہے جس میں بے شمار اہم تاریخی واقعات رونماہوئے۔اسی مہینے امیرالمومنین سیدنا عمرفاروقؓ کی شہادت عظمیٰ کا سانحہ پیش آیا۔ نواسۂ رسول ﷺ حضرت امام حسینؓ نے جام شہادت نوش کیا۔حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔حضرت ابراہیم ؑ پیداہوئے۔حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈالاگیا۔سفینہ حضرت نوح ؑ کوکنارہ ملا۔حضرت یوسف ؑ کو قیدخانے سے رہائی ملی۔حضرت یونس ؑ کو مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے۔حضرت ایوب ؑ نے بیماری سے نجات پائی۔حضرت سلیمان ؑ کو پوری دنیاکی بادشاہت عطاء ہوئی۔حضرت یعقوب ؑ کی بینائی واپس آئی۔ حضرت موسیٰ ؑ پیداہوئے۔اللہ تعالیٰ نے ماہ محرم کی دسویں تاریخ کو آسمان ، پہاڑ، قلم، اورکرسی کو پیدافرمایایاجبکہ قیامت اسی دن آئے گی۔ماہ محرم کے جو فضائل و مناقب صحیح احادیث سے ثابت ہیں ان کی تفصیل ذیل کی سطورمیں رقم ہیں۔
حرمت وتعظیم والا مہینہ : سورۃ توبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسکی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے ، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیداکیاہے، اس میں سے چار مہینے ادب واحترام کے لائق ہیں، یہی درست دین ہے لہذٰا ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو‘‘۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ’’زمانہ اپنی اُسی حالت پرواپس لوٹ آیاہے کہ جس پر وہ اس وقت تھاجب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اورزمین کی تخلیق فرمائی تھی ،سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں ،تین تو لگاتارہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اورمحرم اورچوتھا ماہ رجب جو جمادی الآخراورشعبان کے درمیان ہے‘‘۔ (صحیح بخاری صحیح مسلم)۔ مذکورہ حدیث میں دو باتیں قابل توجہ ہیں ایک تو یہ کہ ماہ محرم بھی حرمت والے مہینوں میں شامل ہے اوردوسری یہ کہ زمانہ اپنی سابقہ حالت وہیت پرواپس لوٹ آیاہے ۔اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ دورِجاہلیت میں بھی لوگ حرمت والے مہینوں کااحترام کرتے اورجنگ وجدل،قتل وغارتگری اورخون ریزی وغیرہ سے اجتناب کرتے تھے۔البتہ اگر کبھی حرمت والے مہینے میں انھیں جنگ وجدل اورقتل وغارتگری کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ اپنے طورپر مہینوں کی تقدیم وتاخیرکرلیتے۔اگربالفرض محرم کا مہینہ ہو تووہ اُسے ازخودہی صفر قراردے لیتے اوراپنے مقاصدپورے کرنے کے بعداگلے ماہ یعنی صفرکو محرم قراردے کر لڑائی جھگڑے موقوف کردیتے۔جس سال نبی کریم ﷺ نے حج فرمایا، اس سال ذوالحجہ کا مہینہ قدرتی طوپر اپنی اصلی حالت پر تھا۔اسی لیے آپ ﷺ نے مہینوں کے ادل بدل کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایاکہ زمانہ گھوم گھماکراپنی اصلی حالت پر واپس لوٹ آیاہے۔یعنی اب اسکے بعد مہینوں کی وہی ترتیب جاری رہے گی جسے اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش سے جاری فرما رکھاہے۔ دونوں باتوں کا حاصل یہی ہے کہ ماہ محرم ادب واحترام والامہینہ ہے کہ اس مہینے میں خون خرابہ،جنگ وجدل کی سخت ممانعت ہے ۔
محرم کے روزے :محرم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ جب نبی کریم ﷺ ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دسویں محرم کا روزہ رکھتے ہوئے پایاتو آپﷺ نے وجہ دریافت فرمائی۔یہودیوں نے بتلایاکہ اس دن موسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دلانے میں کامیاب ہوئے۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ ہم تو تمھاری نسبت کہیں زیادہ موسیٰ ؑ سے قربت رکھتے ہیں چنانچہ آپ ﷺ نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا۔ پھر یہودونصاریٰ کی مخالفت کے احکام نازل ہوئے تو فرمایاکہ اگرمیں آئندہ سال تک زندہ رہاتو نویں محرم کا روزہ بھی ضروررکھوں گا۔(صحیح مسلم)۔ایک اورروایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:عاشورہ کا روزہ رکھواوریہودیوں کی مخالفت کرو،دسویں کے ساتھ ایک دن پہلے یابعد کا بھی روزہ رکھو۔(مسنداحمد)۔حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ رمضان کے بعدبہترین روزہ محرم کا روزہ ہے اورفرض نمازکے بعدبہترین نمازتہجدکی نمازہے۔(صحیح مسلم : ریاص الصالحین)۔ ایک دفعہ رسول اکرم ﷺ سے یوم عاشورہ کے روزے کے بارے میں سوال کیاگیاتو آپ ﷺ نے فرمایاکہ یہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتاہے، جب کہ عرفہ (۹ ذوالحجہ)کے روزے کے بارے میں فرمایاکہ وہ گزشتہ اورآئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتاہے۔(صحیح مسلم)
اسلامی کلینڈرکاآغاز: اسلامی کلینڈرکاپہلامہینہ ہے جسکی بنیاد نبی اکرم ﷺ کے واقعہ ہجرت پر رکھی گئی ہے۔ مسلمانوں کا یہ سن ہجری اپنے معنی ومفہوم کے اعتبارسے منفردحیثیت کا حامل ہے۔دوسرے مذاہب میں جو سن رائج ہیں وہ یاتو کسی شخصیت کے یوم ولادت کی یاددلاتے ہیں یا کسی واقعہ سے وابستہ ہیں۔جیساکہ سن عیسوی کی ابتداء حضرت عیسیٰ ؑ کا یوم ولادت ہے،یہودی سن حضرت سلیمان ؑ کی تخت نشینی کے ایک پرشکوہ واقعہ سے وابستہ ہے۔روی سن سکندراعظم کی پیدائش جبکہ بکرمی سن راجہ بکرماجیت کی پیدائش کی یاددلاتاہے۔لیکن اسلامی سن نبی کریمﷺ کی ہجرت کے اس عظیم الشان واقعہ کی یاددلاتاہے جس سے اسلام کو سربلندی اوراقبال نصیب ہوا۔اس سے ا سلامی اتحادکی ابتداء اوراسلامی اخوت ومساوات کی شروعات ہوئی۔مکہ میں مسلمان مظلوم اورمغلوب تھے مگرہجرت کے بعدان کا ضعف قوت میں،مغلوبیت غلبہ میں اورمحکومیت حاکمیت میں بدل گئی۔مسلمان اپنے دین کاعلی الاعلان اظہارکرنے لگے ۔لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے اورحق کا بول بالاہو گیا۔چنانچہ21ہجری میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک تحریرپیش ہوئی جس پر تاریخ کی جگہ پر شعبان لکھاہواتھا۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے دریافت کیاکہ یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ گذشتہ شعبان ہے یاکہ موجودہ ؟اس مسئلے پر مجلس شوریٰ منعقدہوئی اورحضرت علی کرم اللہ وجہہ کی رائے پر سب کا اتفاق ہواکہ ہجرت نبوی ﷺ سے سنہ ہجری کا آغازکیاجائے۔
شہادت سیدناحضرت عمرفاروقؓ : امیرالمومنین، خلیفۃ المسلمین ،سیدناحضرت عمرفاروقؓ کی شہادت عظمیٰ کا سانحہ بھی ماہ محرم میں پیش آیا۔سیدناحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ ٗ اُن جلیل القدرہستیوں میں سے تھے جنھوں نے اسلام کیلئے بے شمارخدمات سرانجام دیں۔آپؓ کو مرادمصطفی بھی کہا جاتاہے کیونکہ آپؓ کا قبول اسلام بھی رسول خداﷺ کی دعاؤں کا ثمرتھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرفاروقؓ کو دولتِ اسلام سے نوازاتو مسلمانوں کو بڑی فرحت وانبساط اورتقویت حاصل ہوئی۔ اس سے پہلے مسلمانوں کو کفارکی طرف سے طرح طرح کے مصائب وشدائدمیں مبتلاکیاجاتاتھا۔کوئی مسلمان کھلے عام عبادت نہیں کرسکتاتھا۔آپ کے قبول اسلام سے اسلام کے تمام دشمنوں کے عزائم پر پانی پڑ گیا۔ دین اسلام کی ترویج وترقی میں تیزی آنے لگی تھی۔ اب مسلمان اللہ تعالیٰ کی عبادت اعلانیہ طورپر کرنے لگے۔سورۃ انفال میں ارشادباری تعالیٰ ہے کہ ’’اے نبی ﷺ تجھے اللہ کافی ہے اورمومنوں میں سے تیرے وہ غلام جو تیرے فرمانبردارہیں‘‘۔جمہورمفسرین کاکہناہے کہ یہ آیت مبارکہ اس وقت نازل ہوئی جب سیدنا فاروق اعظمؓ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی رائے کی تائید میں کئی آیاتِ قرآنی نازل فرمائیں۔آپؓ کا دس سالہ عہدِ خلافت تاریخ عالم کا وہ سنہری دورہے جسے رہتی دنیاتک ایک مثالی دور کی حیثیت سے یادرکھاجائے گا۔آپ نے 22 لاکھ مربع میل کے علاقے پرمحیط ایک ایسامثالی نظام حکومت قائم کیاجو ہردور کیلئے قابل تقلیدہے۔آپؓ نے خلافتِ اسلامیہ کو فتوحات کے ذریعے بے پناہ وسعت دی۔27ذی الحجہ کو ایک ایرانی مجوسی ابو لؤلؤ فیروزنے نمازفجرکی ادائیگی کے دوران تیزدھاری خنجرمارکر شدیدزخمی کردیاجبکہ یکم محرم الحرام کو اسی عارضے کی وجہ سے آپؓ نے شہادت کا عظیم مرتبہ پایا۔
شہادت سیدنا امام حسینؓ : نواسۂ رسول ﷺ جگرگوشۂ علیؓ وبتولؓ سیدناحضرت امام حسینؓ کی شہادت کا دلدوزواقعہ ۰ا محرم الحرام بروزجمعتہ المبارک سنہ۶۱ ہجری کو پیش آیا اس وقت آپؓ کی عمر ۵۸ سال کے قریب تھی۔احادیث نبوی ﷺ میں آپؓ کے کثیرفضائل ومناقب مروی ہیں۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں(جامع ترمذی)۔حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی اوراللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نجران کے عیسائیوں کے مقابلے میں اپنے بیٹے بلانے کا کہاتو آپ ﷺ نے حسنین کریمینؓ کو بلایا۔(صحیح مسلم)۔حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ایک صبح کالی چادر میں اپنے ہمراہ حسنینؓ اورانکے والدین کو داخل فرمایااورفرمایا، آیت تطہیرتلاوت فرمائی(صحیح مسلم)۔نبی کریم ﷺ نے حضرت امام حسنؓ اورحضرت امام حسینؓ کو جنتی جوانوں کا سردارقراردیا۔(صحیح بخاری)۔حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتہ نے آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضری کی اجازت چاہی تو آپ نے اسے شرفِ باریابی کا موقع عنایت فرمایا۔ آپ ﷺ نے حضرت ام سلمیٰؓ سے فرمایاکہ دروازے کی طرف دھیان دیناکہ کوئی اندرنہ آنے پائے لیکن حضرت امام حسینؓ کودتے پھلانگتے آپ ﷺ تک پہنچ گئے اورآپ ﷺ کے کندھے مبارک پر کودنے لگے:فرشتے نے فرمایا: اے اللہ کے رسول ﷺ !کیاآپ ﷺ اس (امام حسینؓ) سے محبت کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں کیوں نہیں۔فرشتے نے کہا کہ آپ ﷺ کی اُمت اسے قتل کردے گی اگرآپ چاہیں تو وہ مٹی لاکرآپ کو دکھلادوں جہاں اسے قتل کیاجائے گا۔پھر فرشتے نے اپناہاتھ زمین پر مارااورلال رنگ کی ایک مُٹھی بھرمٹی اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں رکھ دی ۔(مسنداحمد، جلد:۳، ص: ۲۴۲)۔
اسوۂ حسینی ؑ : سیدناامام حسینؓ کی شہادت بلاشبہ صبرو استقامت،رضاوجانثاری اوراطاعت الٰہی کی لازوال مثال اوربہترین نمونہ ہے۔عین میدان جنگ میں جب کہ تیروں کی بارش ، نیزوں کی چمک اورتلواروں کی جھنکار سے گھوڑے بھی آگے بڑھنے سے انکارکردیتے ہیں ، بڑے بڑے سوماؤں کے دل دھلتے اورقدم اکھڑنے لگتے ہیں اس عین معرکہ کارزارمیں بھی حضرت حسینؓ روزے سے ہوتے ہیں، میدان جنگ میں بھی کوئی نمازقضا نہیں ہوتی ہے، اہل بیت کی عورتیں اس سخت آزمائش میں بھی جب کہ کلیجے منہ تک آگئے اس وقت بھی بے پردہ نہیں ہوئیں۔ یہی انکی تعلیم ،ان کا اسوۂاوردنیاکیلئے ان کا سبق ہے۔
ماہِ محرم الحرام کی فضیلت و اہمیت
روز ازل ہی کو جب زمین کا سبزہ زار فرش اور آسمان کی نیلگوں چھت تیار ہوئی تھی اور اس میں سورج کا روشن چراغ اور چاند کی خوشنما قندیل جلائی گئی تھی یہ بات نوشتہ الٰہی میں لکھ دی گئی کہ صبح وشام کی تبدیلیوں اور شب وروز کے الٹ پھیر سے ہفتہ اور پھر جو مہینہ وجود میں آتا ہے وہ بارہ ہیں جن میں چار مہینے بڑ ے ہی مبارک ومحترم ہیں ۔ چنانچہ خلاق عالم اپنی آخری کتاب کی سورت برأت میں یوں گویا ہوتا ہے کہ
إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُورِ عِنْدَ اللَّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِی کِتَابِ اللَّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ (التوبۃ:۳۶)
’’بیشک مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک اللہ کے حکم میں بارہ ہے جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ان میں چار حرمت والے مہینے ہیں ۔‘‘
کسی شاعر نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے
سورۃ توبہ میں فرماتا ہے رب
سال اندر چار ہیں ماہ ادب
وہ مہینے ہیں بہت با احترام
قتل وجنگ وظلم ان میں ہے حرام
ان میں سے محرم کا مہینہ بڑ ا ہی قابل احترام ہے اس کا احترام جاہلیت کے تاریک ترین زمانے میں بھی باقی تھا ریگزار عرب کے بدو جو علم سے دور اور عقل سے بیگانہ، وحشت سے قریب اور جنگ وجدال کے رسیا ودلدادہ تھے وہ بھی ان مہینوں کے احترام میں قتل وقتال، جنگ وجدال، کشت وخون، لوٹ مار اور غارت گری ورہزنی سے باز رہتے تھے یہی وجہ ہے کہ محرم کے مہینہ کو محرم الحرام کہا جاتا ہے کہ اس میں معرکہ کارزار گرم کرنا اور انسانوں کے خون کی ہولی کھیلنا حرام ہے ۔
اس مبارک مہینہ کی دسویں تاریخ تو گویا خوبیوں اور فضیلتوں کا گلدستہ ہے کہ اسی دن پیغمبر جلیل موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظالمانہ وجابرانہ شکنجہ اور غلامی کی ذلت آمیزقید وسلاسل سے آزاد کرایا۔اس دن کی فضیلت کیلئے اس سے بڑ ھ کر اور کیا شہادت ہو سکتی ہے کہ رمضان کے بعد اسی دن کے روزہ کو افضلیت حاصل ہے چنانچہ ریاض محبت کی بہار جاوداں کا آخری نغمہ خواں عندلیب اور مستور ازل کے چیرہ زیر نقاب پہلا بند کشا ، پیغمبر اسلام محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیان فرماتے ہیں ۔
’’اَفضَلُ الصِّیَامِ بَعدَ رَمَضَانَ شَہرَ المُحَرَّمِ۔‘‘ (صحیح مسلم)
’’رمضان کے مہینہ کے بعد محرم کے مہینہ کا روزہ افضل ترین روزہ ہے ۔‘‘
لہذا یہ دن تو وہ دن ہے کہ اللہ کا بندہ کمال بندگی کے ساتھ اپنے رب کی محبت میں سرشار ہوکر اس کی اطاعت وفرمانبرداری میں ہمہ تن مشغول ہوجائے انتہائی عجز ونیاز کے ساتھ اپنی عبادت اور اعمال صالحہ کا نذرانہ اس کے دربار عالی میں پیش کرے اور روزہ ونماز ذکر وتسبیح کے ذریعے اس کی خوشنودی ورضا مندی کا جویا وطلبگار ہو۔ رسول ا کرم نے حج کے خطبہ میں فرمایا۔ زمانہ گھوم کر اپنی اصلیت پر آ گیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں جن میں سے چار حرمت وادب والے ہیں تین تو پے درپے ذوالقعدہ ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور چوتھا رجب المرجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے ۔ (بخاری ومسلم)
اسلام سے پہلے لوگ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور اس کے خاتمہ پر عید کرتے تھے ۔ ابتدائے اسلام میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تب عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی جس کا دل چاہے رکھے جی نہ چاہے تو نہ رکھے ۔
جب آنحضرت مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو یہودیوں کو محرم کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا :’’ تم اس روزکیوں روزہ رکھتے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہماری نجات کا دن ہے ۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہم تم سے زیادہ موافقت رکھنے کے حقدار ہیں ۔ اس لئے نبی ا کرم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (بخاری ومسلم)
لیکن یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کیلئے آپ نے فرمایا کہ ’’اگر میں زندہ رہا تو محرم کی نویں اور دسویں کا روزہ رکھوں گا۔ ‘‘
مگر آئندہ سال آپ محرم کے آنے سے پہلے خالق حقیقی سے جاملے لیکن یہ حکم باقی رہا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمل کیا لہذا محرم کی نویں دسویں یا دسویں گیارہویں یعنی دو دن کا روزہ رکھنا چاہیے ۔رسول ا کرم نے فرمایا:
’’صوموا یوم عاشوراء وخالفوا فیہ الیہود صوصوا قبلہ یوما أو بعدہ یوماً ۔ (أحمد)
’’عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو دسویں کے ساتھ ایک دن اور روزہ رکھو چاہے ایک دن پہلے ہو یا ایک دن بعد کا۔‘‘
ماہ محرم کی فضیلت اس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ سن ہجری(اسلامی سال) کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد سرور کائنات کے واقعہ ہجرت پر ہے لیکن اس کا تقرر اور آغاز استعمال ۱۷ ہجری میں عہد فاروقی سے ہوا۔ یمن کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے احکامات آتے تھے جن پر تاریخ کا اندراج نہیں ہوتا تھا چنانچہ ۱۷ ہجری میں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر خسر مصطفیٰ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا ۔ طے یہ پایا کہ اپنے سن تاریخ کی بنیاد واقعہ ہجرت کو بنایا جائے اور اس کی ابتداء محرم سے کی جائے کیونکہ ۱۳ نبوی کے ذوالحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا منصوبہ طے کر لیا گیا تھا اور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا۔
مسلمانوں کا سن ہجری اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے منفرد حیثیت کا حامل ہے ۔ دوسرے مذاہب میں جو سن رائج ہیں وہ یا تو کسی شخصیت کے یوم ولادت کی یاد دلاتے ہیں یا کسی قومی واقعہ مسرت وشادمانی سے وابستہ ہیں ۔ نسل انسانی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔
جیسا کہ سن عیسوی کی ابتداء سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہے ۔ یہودی سن حضرت سلیمان علیہ السلام کی فلسطین پر تخت نشینی کے ایک پر شکوہ واقعہ سے وابستہ ہے روی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو ظاہر کرتا ہے ۔ بکرمی سن راجہ بکر ماجیت کی پیدائش کی یاد دلاتا ہے ۔
لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوی کے ایسے عظیم الشان واقعہ کی یادگار ہے جس میں ایک سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان پر اعلائے کلمہ الحق کے بدلے میں مصائب وآلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑ یں ۔ سب لوگ دشمن ہوجائیں ، اعزہ واقربا بھی اس کو ختم کرنے پر تل جائیں اس کے دوست احباب بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا کر دئیے جائیں تمام سربر آوردہ لوگ اسے قتل کرنے کا عزم کر لیں ، اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے اس کی آواز کو بھی دبانے کی کوشش کی جائے تو اس وقت وہ مسلمان کیا کرے ؟اسلام یہ نہیں کہتا کہ کفر وباطل سے مصالحت کر لی جائے یا حق کی تبلیغ میں مداہنت اور رواداری سے کام لیا جائے اور اپنے عقیدے اور نظرئیے میں نرمی پیدا کر کے ان کے اندر گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور کم ہو جائے ۔ نہیں ، بلکہ اسلام ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کر کے ہجرت کا حکم دیتا ہے ۔
اسی واقعہ ہجرت پر سن ہجری کی بنیاد ہے جو نہ تو کسی انسانی فوقیت وبرتری کو یاد دلاتی ہے اور نہ ہی کسی پر شکوہ واقعہ کو … بلکہ مظلومی وبے بسی کی ایسی یادگار ہے جو ثابت قدمی ، عزم واستقلال ، صبر واستقامت اور رضائے الٰہی پر راضی ہونے کی زبردست مثال اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے ۔
یہ واقعہ ہجرت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وہ مظلوم ، بے کس بے بس اور لاچار مسلمان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور کس طرح وہ خارستان میں گئے ، بیابان اور جنگل میں گئے اپنے آبلوں سے کانٹوں سے تواضع کی ، صرصر کو دیکھاو سموم کو دیکھا، لو اور دھوپ کو دیکھا ، تپتی ریت اور دہکتے کوئلوں کو ٹھنڈا کیا، جسم پر چرکے کھائے ، سینے پر زخم سجائے ، آخرمنزل مقصود پر پہنچ کر دم لیا ، کامرانی وشادمانی کازریں تاج اپنے سر پر رکہا اور پستی وگمنامی سے نکل کر رفعت وشہرت اور عزت وعظمت کے بام عروج پر پہنچ گئے ۔لیکن سوائے ناکامی آج ہم نے ہجرت کے حقیقی درس کو فراموش کر دیا اور خودساختہ بدعات وخرافات سے نئے سال کی ابتداء کرتے ہیں ۔
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اس ماہ محرم الحرام کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ سانحہ تو رسول ا کرم کی وفات سے پچاس برس بعد پیش آیا۔ اور دین رسول کی حیات طیبہ میں مکمل ہو گیا تھا اگر بعد میں ہونے والی شہادتوں کی شرعی حیثیت ہوتی تو خسر مصطفی ، مراد مصطفی اور شہید محراب سیدنا عمر فاروق کی شہادت اور سیدنا عثمان کامل الحیاء والایمان کی مظلوم شہادت اس لائق تھیں کہ مسلمان ان کی یادگار مناتے اور اگر ماتم وشیون کی اجازت ہوتی تو اسلامی تاریخ میں یہ شہادتیں ایسی تھیں کہ اہل اسلام اس پر جتنی بھی سینہ کوبی اور ماتم وگریہ زاری کرتے کم ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے واقعات تکمیل دین کے بعد پیش آئے ۔
[headline]Written by: Sajjad Ahmed [/headline]