تحریر:مکرمہ کلیم

عنوان:سنت کی عظمت
***

وہ منظر کتنا حسین ہوتا ہےجب مشرق کی گودسے سورج اپنے سر پر کرنوں کاتاج سجا کرطلوع ہوتا ہے۔

جب برسات کی رت میں آم کے باغوں میں کوئل کوکتی ہے۔

جب باد نسیم گلوں سے چھیڑچھاڑ کر تےہوئے چمن سے گزرتی ہے۔

جب گھبمیر کالی گھٹاوں میں سفید براق کبوتر محو پرواز ہوتاہے۔

جب چودھویں کا چاند ستاروں کے جھرمٹ میں اپنی محفل سجاتا ہے۔

جب گل وبلُبل روبرو گفتگو کرتے ہیں۔

جب مست خرام ندی گنگناتی ہوئی کسی مرغزار سے گزرتی ہے۔

جب گلاب کے مکھڑے پر شبنم کے موتی جھلملاتے ہیں۔

جب کسی صحرا میں رات کاسناٹا ستاروں کی کھتا سنتاہے۔

جب شوخ وشنگ ہواؤں سے سیب اور ناشپاتی کے درختوں کی ڈالیاں مستی میں رقص کرتی ہیں۔

جب سر شار طوطوں کی ڈرائیں باتوں کی مستی میں اپنے بستروں کی جانب سحر انگیزپرواز کرتی ہیں۔

جب باصرہ نواز چمنستانوں میں تتلیاں دلربا رقص کرتی ہیں۔

جب چکور مہتاب کے گرد عاشقانہ پرواز کرتا ہے۔

جب حدی خوان کے دلفریب نغموں سے مسحور ہو کر اونٹوں کا قافلہ مستانہ وار دوڑتا چلاجاتاہے۔

جب رات کی رانی کی خوشبو رات پر اپنا سحر جماتی ہے۔

جب کسی جھیل کے شفاف پانی میں چاند کا عکس اتر تا ہے۔

جب موسم کی دلفر یبی سے خوش ہو کر مور دیوانہ واررقص کرتاہے۔

جب برسات کی اندھیری بھیگی راتوں میں جگنووں کا چراغاں ہوتا ہے۔

جب نیلگوں آسمان سے لٹکتی ستاروں کی قندیلیں سیاہ راتوں پر نور کی کرنیں پھینکتی ہیں۔

جب فلک پر قوس قزح اپنے رنگوں کی جلوہ نمائی کرتی ہے۔

جب بادلوں کی اوٹ سے چاند آنکھ مچولی کرتا ہے۔

میں سوچتی ہوں کہ اگر یہ مناظر اتنے حسین ہیں تو وہ ہستی کتنی حسین ہوگی جس کے لیے یہ بزم ہستی سجائی گئی جس کے لیے کائنات کے گیسو سنوارےکئے گئے۔

پھر کیوں نہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر دل وجان سے عمل کریں۔زندگی کا کون سا ایسا شعبہ ہے جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری رہنمائی نہ فرمائی ہو۔انفرادی ،اجتماعی ،سیاسی ،معاشی غرض ہرشعبہ زندگی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات وتعلیمات ہمارے لیے راہ نما اور سراپا نور ہے ۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کو یہودیوں نے طنز کیا کہ “تمھارے نبی تمھیں بیت الخلاء کے طور طریقے بھی سکھاتے ہیں”اس کا جواب حضرت سلمان نے بڑے فخر سے دیا،”ہاں!ہمارے نبی ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں”۔

آج ہم مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ہم کافروں سے اتنے متاثر ہیں کہ ہر چیز ان سے مستعار لیتے ہیں،ذہنی غلامی اس حد تک ہے کہ کھانے سے لے کر پہننے تک ہرہر چیز میں ان کی نقالی کو فخر سمجھتے ہیں اور ایسے بے دست وسراپا رہتے ہیں جیسے ہمارے پاس کوئی مشعل راہ یا راہ نجات نہیں ہے۔

آئیےدیکھئے نقالی:میرے بیٹے کو دم کردیں۔
کیا مسئلہ ہے اسے؟ہم نے پوچھا۔
یہ ہروقت روتا ہے ،ڈرتاہے اور کھانے میں ضد کرتا ہے۔
ہم نے اس کی بات کوبغورسنا اور عرض کیا:
محترمہ!اس بچے کو دم کا فائدہ ممکن نہیں لگتا کیونکہ جس جگہ کوئی جاندار کی تصویر ہوتی ہے وہاں اللہ کی رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔
یہ دیکھیں آپ کےبچے کی شرٹ پرکتنی بڑی اورواضح تصویریں بنی ہوئی ہیں۔اس میں قرآنی آیات کاپڑھنابےفائدہ ہی نہیں بلکہ بے ادبی بھی ہے۔
آپ اس کے کپڑے تبدیل کروائے ہوسکے تو شلوار اور کرتہ پہنائیےتاکہ سنت کے مطابق لباس ہوجائےپھردم کابھی زیادہ اثر ہوگا۔
اگلی مرتبہ نہلا دھلا کر سفید کرتہ شلوارپہنا کر تشریف لائیں ۔ہم نے آیات شفاء پڑھ کر پھونکی ۔ڈرختم ہوگیا،رونابھی کم ہوگیا۔
جب اللہ نے ہمیں زندگی کے ہرشعبہ میں قوانین دئیےہیں تو کیا لباس کے بارے میں ہمیں آزاد چھوڑ دیا،صرف ایک لباس کیا ہم تو ہر طرح کے گناہ دل کھول کرکرتے ہیں پھر طرح طرح کی مصیبتیں ،پریشانیاں ہمیں چاروں سے گھیر لیتے ہیں مگر اس وقت بھی بہت کم لوگ سیدھے راستے پر آتے ہیں۔

جو لوگ زندگی سنت کے مطابق گزارتے ہیں ان کی زندگی کتنی پرکیف ہوتی ہے۔

؎ رستہ میں اُن کے جوبھی چلاہے
نہ جانے کیا کیا اس کوملا ہے

سونا ،جاگنا،پہننا اور کھانا یہ سب کام ہم سنت کے مطابق کریں تو یہی کام جو کہ بظاہر دنیاوی ہے لیکن سنت کے مطابق کرنے پر ہمیں ثواب ملتا ہے،بس ذراسی سی توجہ اوردھیان کی ضرورت ہے۔جب ہم اپنا ظاہر اسلام کے مطابق کریں گے اللہ تعالی باطل خود سنوار دے گا۔

؎ یا ربٍٍ! تیرے محبوب کی شباہت لے کے آیا ہوں
حقیقت اس کوتوکردےمیں صورت لے کے آیا ہوں

DOWNLOAD

اصلاح شدہ تحریر

Similar Posts